پر کشش خواتین مائل کرنے کے لیے مرد مقابلے کرتے ہیں
اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ دوسرے مردوں کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں مرد بہت سی حماقتیں کربیٹھتے ہیں، خاص طور سےجب معاملہ کسی خوبصورت عورت کو اپنی جانب متوجہ کرنےکا ہو۔ برطانیہ میں ہوئی ایک تحقیق سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے، لیکن کم از کم اس معاملے میں مردوں کے مقابلہ کے لیے کوئی اچھی وجہ تو تھی ۔
ہر سال لندن میراتھن میں محدود لوگوں کو ہی شامل ہونے دیا جاتا ہے اور اس میں حصہ لینے کے لیےایک طریقہ ہے کسی خیراتی ادارے سے وابستہ ہو کر اس کے لیے فنڈ کی وصولی کے لیے آمادہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح ایک شخص اس کے خاندان، دوست اور دوسرے کچھ اور افراد گرانٹ دے سکتے ہیں اور وہ شخص یہ دولت خیرات میں دے سکتا ہے۔ 2014 لندن میراتھن میں حصہ لینے والے لوگوں کو ملے گرانٹ کے ٹیسٹ کے لیے محققین مخیر حضرات اور وصول کنندگان کے نام اور تمام دستیاب اطلاعات کی چھان بین کر کے یہ پتہ لگایا کہ وہ مرد تھے یا خواتین۔ چونکہ رنر آپ کی تصویر اپ لوڈ کر سکتے ہیں تو یہ ایسے بھی پتہ چلا کہ رنر خواتین تھیں کہ نہیں، اگر ہاں تو وہ کتنی پرکشش تھیںاور تفصیلات یہاں دستیاب ہیں۔
سب سے بڑا تعاون یا خیراتی رقم 100 پونڈ تھی ،جبکہ اوسط گرانٹ رقم اس سےنصف تھی۔زیادہ خیرات دینے کے معاملے میں مردوں نے بازی ماری اور عورتوں سے اوسطاً 10 پونڈ زیادہ کی رقم عطیہ میں دی۔ اگر عطیہ حاصل کرنے والی کوئی پرکشش عورت تھی تواس نے مردوں کی طرف سے دی گئی گرانٹ کی رقم قریب 28 پونڈتک بڑھ گئی تھی۔
تاہم مردوں کے لیےیہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں، يونورسٹی کالج لندن سے معاون مصنفین میں سے ایک نکولا ریحانی کا کہنا ہے کہ ’’حقیقی حالات میں ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ لوگ اتنی سخاوت کیوں دکھاتے ہیں جبکہ ان کا کوئی براہ راست فائدہ نہیں ملتا۔ ہمیں زبردست نتائج م کا سامنا رہا کہ دلکش اور پر کشش خاتون کے سامنے مرد سخاوت کا اظہار کرنے میں مقابلہ کرتے ہیں، جبکہ خواتین ایسا نہیں کرتیں۔مدد کے معاملے میں مقابلہ کرنا خواتین نہیں مردوں کی فطرت ہے۔‘‘
محققین کے مطابق، اس رویے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ نادانستہ طور پر ہی مرد یہ مانتے ہیں کہ سخاوت ان کی ایک دلچسپ خصوصیت ہے، جیسے امیر ہونا یا اچھا انسان ہونا ہے۔ اگرچہ اس مقابلہ کے رویے کے بارے میں ایسا نہیں ہے کہ یہ اصل نہ ہو اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ صرف خواتین کو متاثر کرنے کے لیے ہے۔ ریحاني کہتی ہیں کہ ’’لوگ اصل میں اور نظر آتے ہیں اور خیرات دینے کے ان کی وجوہات میں کوئی ذاتی فائدہ کا احساس نہیں ہے بلکہ وہ کہیں تھوڑا بہت یہ مانتے ہیں کہ شاید انہیں وقتی طور پر کوئی فائدہ ہو بھی سکتا ہے۔‘‘
برسٹل يونورسٹی سے ایک اور معاون مصنف سارا سمتھ کا کہنا ہے کہ’’ خیرات یا عطیہ میں دی جانے والے رقم کے جائزے کے دوران فنڈ ریزنگ کا معاملہ ایک حقیقی زندگی کے تجربہ گاہ کی طرح سامنے آیا۔ پہلے ہم نے دیکھا تھا کہ مخیر حضرات کس طرح اور کتنا عطیہ دیتے ہیں، اب ہم نے دیکھا کہ عطیہ دہندگان کی طرف سے عطیہ دیا جانا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ جسے عطیہ دے رہے ہیں وہ کتنا دلچسپ ہے، اگرچہ یہ مخصوص وجہ سے ہو۔‘‘ تحقیقی مقالے میں سامنے آئے ایک اہم نکتہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’’عملی طورپر خیرات کی رقم فنڈ ریزر کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسہ اکٹھا کر سکتے ہیں، اس کے بہت سے زاویہ سامنے آئے ہیں،لندن میراتھن کے فنڈ ریزر کے بارے میں، میں کہنا چاہوں گی کہ آپ اپنے جاننے والوں سے فوری عطیہ دینے کو کہیں اور اپنی ایک پرکشش تصویر اپ لوڈ کریں، اگر تصویر مسکراتی ہوئی ہو تو اچھا۔‘‘
ان نتائج سے کچھ لوگ حیران نہیں ہوں گے اور وہ لوگ ہیں فلموں کے مصنف۔آپ سوچیں گے تو یاد آئے گا کہ کتنی ہی فلمیں ایسی ہیں ،جن میں ہیروئن کا دل جیتنے کے لیے ہیرو کسی بچے یا پالتو جانور کے ساتھ سخاوت ظاہر کرتا ہے۔ایسی بھی کئی فلمیں ہیں جن میں ایک عورت کے لیے مرد دیر تک مقابلہ کرتے ہیں۔اب ان کہانیوں کو مضبوط کرتی ریسرچ بھی سامنے آ گئی ہے۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔
۔