نئی ملیریا ویکسن میں پیش رفت ہو سکتی ہے


نئی ملیریا ویکسن میں پیش رفت ہو سکتی ہے

Photo: CDC/Wikimedia

نئی ملیریا ویکسن میں پیش رفت ہو سکتی ہے

صرف افریقہ میں ہر روز 1300 بچے ملیریا کی وجہ سے مرتے ہیں۔ شرح اموات کے ان اعداد و شمار کو کم کرنے کی سمت میں اب تک کسی ویکسین کو منظور نہیں دی گئی ہے، لیکن اب ہو سکتا ہے کہ یہ صورت حال بدلے۔اگر ضرورت کے مطابق منظوری مل جاتی ہے ،تو یہ ایک بڑا اقدام ہو گا ۔کیونکہ اس سال اکتوبر تک ایک نئی ویکسین دستیاب ہونے کا امکان ہے۔

ہفنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ایک متوقع ویکسین RTS.S01 انسانوں میں طبی جانچ کے ایڈوانس دور میں پہنچ چکی ہے۔ افریقی بچوں کو ملیریا سے بچاؤ کے لیے دیے جانے والے ویکسین میں دیئے جانے کے چا سال کےبعد تک اس کے موثر ہونے کے اشارے ملے ہیں۔یہ ویکسین 2009 سے ٹیسٹ کے مراحل میں ہے اور اپریل 2015 میں لینسیٹ جرنل میں اس کےآخری مرحلے کے اعداد و شمار کے تعلق سے مضمون شائع ہوا تھا ۔

اگرچہ یہ بیماری سے مکمل دفاع نہیں کرتی لیکن ویکسین کی ترقی کر رہےمحققین کویقین ہے کہ اگر اس کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوا تو ہر سال کے اعداد و شمار پر بڑے پیمانے پر اثرہو گا۔ ٹیسٹ کے دوران پایا گیا ہے کہ اگر 1000 بچوں کو یہ ویکسین دی گئی تھی تو 4 سال کی مدت میں طبی ملیریا کے 1363 معاملے کم ہو گئے، ان کی مقابلے میں جنہیں ملیریا ویکسین نہیں دی گئی تھی، ان بچوں کو دوسری ویکسین دی گئی تھیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بچے یہ ویکسین نہیں لیتے انہیں ایک سے زیادہ بار بھی ملیریا ہوتا ہے، تو فی ہزار بچوں پر ملیریا کے معاملات کی تعداد زیادہ نظر آئی ہے۔

ملیریا ایک بیماری ہے جو متاثرہ شخص کے خون اور جگر میں ایک بیرونی جرثومے کے پنپنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جن بچوں کو یہ ویکسین دی گئی ان میں طبی اور شدید ملیریا کے معاملات کم درج ہوئے۔ دونوں قسم کے ملیریا میں یہ فرق ہے کہ ایک مخصوص مقدار میں لیے گئے خون میں پیراساٹس کی تعداد کتنی ہوتی ہے۔

اس ویکسین کے ٹیسٹ کے دوران بچوں کو ایک ماہ میں تین خوراک دیئے گئے اور پہلے خوراک سے 20 ماہ بعد ایک بوسٹر بھی۔ کچھ بچوں کو 6 سے 12 ہفتے کی عمر کے درمیان یہ خوراک دی گئی اور کچھ کو 5 سے 17 ماہ کی عمر میں۔ تحقیق میں پتہ چلا کہ دوسرے گروپ کے بچوں میں ویکسین زیادہ موثر ثابت ہوئی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی دونوں گروپوں کے بچوں میں اس کا اثر کم ہو گیا۔ لیکن 20 ماہ بعد دیے گئے بوسٹر کی وجہ سے دونوں گروپوں کے بچوں میں تحفظ کا وقت بڑھ گیا۔ ایک بوسٹر خوراک کی وجہ سے ممکنہ طور پر 1774 انفیکشن سے دفاع ممکن ہو سکا۔

برطانیہ میں لندن اسکول آف هائجين اینڈ ٹرپیکل میڈیسن کے پروفیسر اور مصنف برائن گرین اوڈکے کا کہنا ہے کہ’’وقت کے ساتھ افادیت کم ہونے کے باوجود اس ویکسین کا فائدہ واضح طور پر دیکھیے۔‘‘ گرین اوڈ نے کہا کہ ’’2013 میں ملیریا کے قریب 20 کروڑ معاملات تھے، اس افادیت والی ویکسین کی وجہ سے کروڑوں بچوں کو ملیریا سے بچایا جا سکتا ہے۔‘‘

گرین اوڈ نے مزید کہا کہ’’فائنل ڈیٹا کی بنیاد پر ویکسین کے معیار، تحفظ اور افادیت کا تجزیہ یوروپین میڈسنس ایجنسی کرے گی۔ اگر ای ایم اے اس کے حق میں رائے دیتی ہے تو عالمی ادارہ صحت اس سال اکتوبر تک اس کے استعمال کی سفارش کر سکتا ہے۔اگر اسے لائسنس ملا تو، SRT,S01پیراساٹ بیماری کے خلاف یہ پہلی لائسنس والی انسانی ویکسین ہو گی۔‘‘

ای ایم اور ڈبلیو ایچ او کی طرف سے منظوری ملنے کے بعد اس ویکسین کے عام استعمال کو لے کر ہر ملک کو یہ لائسنس دینے کا فیصلہ اسی سطح پر کر سکے گا۔ اگرچہ اس ویکسین سے ملیریا سے مکمل دفاع نہیں ہوتا اور اس کے اثرات کی شرح 18 سے 28 فیصد کے درمیان ہے لیکن پھر بھی یہ ایک خوش آئند آغاز ہو جائے گا۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *