بچہ مزدوری پابندیوں میں نرمی کی سرکاری پیشکش


Photo: Shutterstock

Photo: Shutterstock

بچہ مزدوری پابندیوں میں نرمی کی سرکاری پیشکش

ہندستان ٹائمز کے ایک مضمون کے مطابق، ملک کے ‘سماجی ڈھانچےکو بچانے کے مقصد سے حکومت منصوبہ بنا رہی ہے کہ بچہ مزدوری پر لگی پابندیوں میں نرمی برتی جائے۔ اس پر جیسا کہ امید تھی، بچوں کے حقوق کے پیروکاروں نے اس کی مخالفت کی ہے اور تشویش کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے 14 سال سے کم کے تمام بچوں کو تعلیم حاصل کرنےکی مہم میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ اس پر حکومت کا کہنا ہے کہ کچھ خاص قسم کے خاندانی کاروبار کے سلسلے میں بچوں کو اس طرح کی اجازت دی جائے گی کیونکہ اس سے ان بچوں کی تعلیم متاثر نہیں ہوتی۔
گزشتہ حکومت کی طرف سے اسے قانون کے طور پر لازم نہیں کیا جا سکا۔ بل کی ایک شکل چائلڈ لیبر (ممنوع اور ریگولیٹری) بل -2012 کے تناظر میں، مجوزہ ترمیم کے مطابق، اگر بچے اسکول کے بعد یا چھٹیوں میں اپنے خاندان کے فارم، جنگل یا خاندان کے کاروبار میں مدد کرتے ہیں تو ان کو اجازت دی جائے گی۔ تاہم 14 سے 18 سال کے بچوں کو خطرے سے پر صنعتوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔خاندانی کاروبار میں کئی طرح کی گھریلو صنعتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں ،جیسے گزشتہ دنوں ایک کیس خبروں میں تھا۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بیڑی بنانا ایک خاندانی کاروبار ہے ،جس میں بہت سے بچے کام کرتے ہیں اور صحت اور اقتصادی طور پر تکلیف بھگتنے پر مجبور ہیں۔

اس فیصلے کے سلسلے میں ایک سرکاری افسر کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’’ہم بھارت کے سماجی ڈھانچے کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے جس میں بچے اپنےخاندان کے بڑوں کے تحفظ اور رہنمائی میں کام سیکھتے ہیں، بجائے اس کے گھر کے ارکان کے ساتھ بچوں کے کام کرنے کی سراہنا کرنا چاہتے ہیں، اس سے بچوں میں کاروباری بننے کے خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔’’ ایک اور وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس طرح کے قانون سے غریب خاندانوں کو مدد ملے گی ، جنہیں اپنی زندگی گزارنے کے لیے کام میں بچوں کی مدد سہارا دیتی ہے۔

تاہم، تمام لوگ اس خیال سے متفق نہیں ہیں ،کیونکہ اس طرح کی ترمیم سے ایسے پست پہلو بن جائیں گے ،جن سےبچوں کے حقوق پامال ہوں گے اور یہ حقوق کے قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔مثال کے طور پر، اسکول سے ڈراپ آؤٹ بچیوں کی تعداد پہلے ہی بچوں کے مقابلے میں دوگنی ہے، وہ اور بڑھ سکتی ہے کیونکہ کام کے بہانے سے انہیں اسکول جانے نہیں دیا جائے گا۔ حکومت یہ قدم ایسے وقت میں اٹھانے جا رہی ہے جب یونیسکو نے ہندستانی قوانین میں بچوں کےتحفظ کی اور ضرورت بتائی ہے۔

اگرچہ گزشتہ 10 برسوں میں بچہ مزدوروں کی تعداد میں کمی آنے کی رپورٹیں جاری ہوئی ہیں ،لیکن کہتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار درست تصویر کی عکاسی نہیں کرتے کیونکہ جو افسر یہ اعداد و شمار جاری کر رہے ہیں، وہ سوالات سے کتراتے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ اب بھی ایسے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو غیر قانونی طور پر مزدور ہیں اور بیڑی، کریکر، جوتے اور قالین جیسی صنعتوں میں جن کا استحصال ہو رہاہے۔ کیونکہ ان سے طویل وقت تک بہت کم معاوضے دے کر کام کروایا جا رہا ہے۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *