غذائی بیداری خون کی کمی سے بچاؤممکن


Photo: Shutterstock

Photo: Shutterstock

غذائی بیداری خون کی کمی سے بچاؤممکن

مہاراشٹر کے وردھا کے گاؤں بورگاو گوڈي میں رہنے والی آدھی خواتین اینميا کے مرض میں مبتلا ہیں۔ یہاں کے لوگ نہ تو غریب ہیں نہ کھانے کی کمی ہے،پھر بھی ان کی پرورش کے بارے میں صحیح معلومات اور صحت کے مطابق خوراک کے بارے میں شعور نہیں ہے ، اسی لیے وہ اینميا کا شکار ہو کر کمزوری اور تھکن محسوس کرتی ہیں ۔ عورتوں اور بچوں کے تئیں امتیاز بھی ان کی پرورش میں کمی کی ایک وجہ ہے۔یہ صورت حال تقریبا پورے ہندستان میں ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، چنئی کے ادارے ایم ایس سواميناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن گزشتہ 8-10 برسوں سے اسصورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ فاؤنڈیشن کا دعوی ہے کہ بورگاوں اور اس کے ارد گرد کے چار دیہات جہاں فاؤنڈیشن فعال ہے، وہاں اگلے دو برسوں میں خواتین اور بچے ہیموگلوبن کی عام سطح کو حاصل کر لیں گے۔فاؤنڈیشن کو یہ بھی امید ہے کہ دیہاتی افراد غذائیت کے بارے میں آگاہ بھی ہوں گے۔
یہ فاؤنڈیشن عوام کی اقتصادی ترقی اور سماجی و ماحولیاتی ترقیاتی کی پالیسیوں کی تشہیر کرتا ہے۔فاؤنڈیشن کسانوں کو ويكتگ، کمیونٹی باغات اور عام کاشت کے لیے بیج وغیرہ مفت تقسیم کرتا ہے۔ یہ لوگوں کو زراعت اور غذائیت کے تعلق سے بیداری کام بھی کر رہا ہے ۔ گاؤں کی ایک 47 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ ’’مجھے نہیں پتہ کہ اینمك ہونا کیا ہوتا ہے ،لیکن مجھے خوشی ہے کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم اگر تازہ پتے دار سبزیاں کھائیں گے تو ہمیں کمزوری محسوس نہیں ہوگی۔‘‘
گاؤں میں ایک عوامی باغ بھی بنایا گیا ہے تاکہ عورتیں وہاں کام کر سکیں۔اس سے وہ اپنی فصل حاصل کرنے کے ساتھ ہی پھل اور سبزیاں بھی پا سکتی ہیں جو ان کی غذا کے لیے ضروری ہے۔
اس پروجیکٹ کے ساتھ منسلک ایک اور خاتون کلپنامداوي کا کہنا ہے کہ ’’سبزیاں اگانا کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ان کی اہمیت کیا ہے۔فاؤنڈیشن کے فعال ہونے کے بعد ہم زیادہ واقف ہوئے ہیں۔ہم اس قدر سبزیاں اگا پا رہے ہیں کہ جس میں سے خواتین کچھ فروخت کرتی ہیں اور اپنے لیے کچھ رقم بھی کما رہی ہیں۔‘‘
اگرچہ یہ تمام کام تعریف کے قابل ہیں لیکن یہ کتنے موثر ہیں، یہ سوال اب بھی قایم ہے۔ تبدیلی کی رفتار بلا وجہ سست نظر آتی ہے۔خواتین انميا سے لڑنے کے لیے اپنے باغ بڑھانے کے بجائے آئرن سپلیمنٹ کیوں نہیں لے سکتیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے رپورٹر کو اس خبر میں مزید سوالات پوچھنا چاہئے تھے ۔کہیں یہ رپورٹ فاؤنڈیشن کی طرف سے اسپانسر تونہیں ہے ۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *