اسقاط حمل خاتون مجرم نہیں ہے


Photo: nikilitov – Fotolia

Photo: nikilitov – Fotolia

اسقاط حمل خاتون مجرم نہیں ہے

طے شدہ فیصلے کے مطابق حاملہ ہونے والی زیادہ تر خواتین ایک صحت مند بچے کو پیدا کرنے کے لیے تمام تر کوشش کرتی ہیں، پھر بھی تحقیق کا اندازہ ہے کہ 5 میں سے 1 معاملے میں اسقاط حمل ہوتا ہے۔ اس حادثے کا شکار خواتین دکھ بھرا تجربہ ہی نہیں بلکہ شرم اور احساس جرم میں مبتلا رہتی ہیں۔ دکھ تو لازم ہے لیکن بہترین تحقیق کے مطابق، خواتین کو اس کے لیے خود کو مجرم نہیں سمجھنا چاہئے۔اسقاط حمل کے زیادہ تر معاملات میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جسے خواتین روک سکیں۔ مغربی اور بھارتی دونوں معاشروں میں یہ مسئلہ گفتگو کا موضوع کم ہی رہا ہے اس وجہ سے خواتین کو صحیح معلومات نہیں مل پاتیں بلکہ اس موضوع کو معیوب سمجھے جانے کی وجہ سے خواتین کو تنہا ہی یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ کتنے اسقاط حمل ہوتے ہیں لیکن امریکہ اور برطانیہ میں یہ اعداد و شمار 15 سے 20 فیصد کی شرح میں ہیں۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں، کیونکہ بہت سے معاملات میں میڈیکل جانچ نہیں ہوتی اوربہت سی خواتین کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ حاملہ تھیں۔ بہت سے لوگ، خاص طور پرمرد، سمجھتے ہیں کہ اسقاط حمل اتنا نہیں ہوتا۔ امریکہ میں ہوئے ایک سروے میں 53 فیصد مردوں اور 38 فیصد خواتین نے اسقاط حمل کے واقعات کا اندازہ لگاتے ہوئے تسلیم کیا کہ شاید ایسا 5 فیصد ہوتا ہوگا جبکہ 27 فیصد مردوں اور 46 فیصد خواتین نے 25 فیصد کا اندازہ لگایا جو حقیقی اعداد و شمار کے قریب ہے۔ ’’ آبسٹیرکس اینڈ گائناکلوجی‘‘ میں شائع ایک تحقیقی مضمون میں ان اعداد و شمار کی معلومات دی گئی ہے۔
اس سروے کے شرکاء میں سے جن کے ساتھ اسقاط حمل واقع ہو چکاتھا، ان میں سے قریب نصف لوگوں نے مانا کہ وہ خود کو مجرم سمجھتے ہیں، ایک تہائی نے مانا کہ وہ شرم محسوس کرتے ہیں اور قریب 38 فیصد نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ ان سے کوئی غلطی ہوئی اور شاید وہ اس کی روک تھام کر سکتے تھے۔ محققین نےشرکاء سے یہ نہیں پوچھا کہ انہیں کیا لگتا ہے کہ کیا غلطی ہوئی، بلکہ صرف یہی پوچھا کہ اسقاط حمل کو لے کر وہ کیا سمجھتے ہیں۔
اوسطا، 5 میں سے 1 یعنی 22 فیصد شرکاء نے کہا کہ اسقاط حمل کی عام وجہ طرز زندگی ، یعنی منشیات، شراب یا تمباکو کی زیادہ مقدار کا استعمال وغیرہ ہے۔ اگر یہ اعداد و شمار کو خواتین و مرد کے بیانات کے مطابق سمجھا جائے تو 31 فیصد مرد اس وجہ مانتے ہیں جبکہ صرف 15 فیصد خواتین۔ تحقیق کے مطابق، 80 فیصد سے زیادہ اسقاط کے معاملات کی وجوہات میڈیکل یا جینیاتی بے ضابطگیاں ہوتی ہیں جو کسی بھی عورت کے اختیار میں نہیں ہوتیں۔
سروے میں 4 میں سے 3 نے اسقاط حمل کے سب سے زیادہ عام وجہ کے طور پر میڈیکل یا جینیاتی حالات کو ہونا سمجھا جبکہ اتنے ہی لوگ کسی ایک واقعہ سے پیدا ہوئے یا طویل عرصے سے چل رہی کشیدگی کو اسقاط حمل وجہ مانتے ہیں جو غلط ہے۔
بھاری سامان اٹھانے سے اسقاط حمل نہیں ہوتا حمل کے دوران جنسی عمل کرنے سے اسقاط حمل نہیں ہوتا حمل کے دوران معمول ورزش سے اسقاط حمل نہیں ہوتا جنسی عمل کی وجہ سے پہلے ہوئی کسی بیماری کی وجہ سے اسقاط حمل نہیں ہوتا کافی پینے سے اسقاط حمل نہیں ہوتا کسی تنازع میں الجھنے سے اسقاط حمل نہیں ہوتا بچے نہ ہونے کی خواہش کی وجہ سے اسقاط حمل نہیں ہوتا بھارت میں، خبروں، صحت کے تعلق سے مضامین اور عام لوگوں میں اسقاط حمل سے بچاؤ کے لیے جو تجاویز دی جاتی ہیں، وہ دوسری وجوہات کی جانب بھی اشارہ کرتی ہیں، لیکن وہ تجاویز ایک عورت کو ذہن میں رکھتی ہیں۔ انہیں پڑھیں، پورٹ ہولس سے لے کر کچھ خاص پکوان تک کو اسقاط کی وجہ بتانے والا یہ خیال (نيوزپاي ایسےگمراہ کن اطلاعات کی لنک نہیں دے گا) کہ جو آپ کو کشمکش میں مبتلا کریں گی۔ ایسی کسی بھی اطلاع کا کوئی میڈیکل ثبوت نہیں ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے وقت میں نئی ​​ٹیکنالوجی اور آلات کے باوجود کسی بھی ڈاکٹر کو اسقاط حمل کی وجہ بتانے کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس مقالے کے ایک مصنف اور نیویارک میں ایشیوا يونورسٹی کے البرٹ آئنسٹائن کالج آف میڈیسن کے استاد ذیو ولیمز نے هفگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ’’ آدھے سے زیادہ اسقاط حمل کی صورتوں میں وجہ کا پتہ نہیں چلا اور ان میں سے کچھ اقساط میں محدود معلومات کی وجہ سے ہی وجہ سمجھا گیا۔

جبکہ میڈیکل سائنس ہر سوال کا جواب نہیں دے سکتی، لوگ بھی اسقاط حمل کے بارے میں وجہ نہیں جاننا چاہتے۔ سروے میں 10 میں سے 9 نے جاننا چاہا کہ وجہ کیا تھی اور 10 میں سے 8 نے جاننا چاہا کہ کیا کچھ بھی ایسا نہیں تھا جس کے لیے وہ کچھ کر سکتے تھے۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے۔ پرانے وقت سے چلے آ رہے عقائد کو سمجھیں تو ان ہی خیالات کو تقویت ملتی ہے جس میں بالآخر عورت کو مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ ‘‘اسقاط حمل مسئلہ پرانے وقت سے رہا ہے ،تو اس تعلق سے لوگوں کی سوچ بہت پرانی ہےاور یہ خیال پرانی سوچ کے مطابق ہی بن چکا ہے۔ یہ جدید طبی کے دور سے پہلے تک کے وقت میں بن چکا تھا۔ ‘‘ اصل میں، مستند اطلاعات کی غیر موجودگی میں، لوگ دیگر اطلاعات سے تسلی حاصل کر لیتے ہیں۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *