میزلس ویکسن اوٹزم کی وجہ نہیں ہے


Photo: Shutterstock

Photo: Shutterstock

میزلس ویکسن اوٹزم کی وجہ نہیں ہے

کسی ڈاکٹر، سائنس یا یونیورسٹی کی طرف سے اب تک ایسی کوئی قابل اعتماد تحقیق نہیں ہوئی ہے، جو یہ ثابت کرے کہ ایم ایم آر یعنی ميزلس، مپس اینڈ ربیلا، ویکسین کی وجہ سے اوٹزم سپیکٹرم متاثرہوتا ہے۔ انگلینڈ کے ایک ڈاکٹر کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق 1998 میں شائع ہوئی تھی، جو ان دونوں کا تعلق ثابت کرتا تھا ، لیکن اس رپورٹ کو غلط پایا گیا، جس شمارےمیں وہ شائع ہوا تھا، اس نے معافی مانگی اور اس ڈاکٹر کو معطل کر دیا۔ 2015 میں کیے گئےایک مطالعہ میں پھر یہ ثابت ہوا کہ ویکسین اوراو ٹزم کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس تحقیق کے بعد والدین کے پاس کوئی وجہ نہیں بچتی کہ وہ آپ کے بچے کو ان بیماریوں سے بچانے کے لیے یہ ویکسین نہ لگوائیں ۔
صحت سے مطعلق مشاورتی ادارے امریکہ کے لیون گروپ کی ڈاکٹر انجلی جین طرف سے کی گئی تحقیق کے مطابق ، جو امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے خط میں شائع ہوئی ہے، جس میں ان ایک لاکھ بچوں کی صحت پر نظر رکھی گئی جو پرائیویٹ میڈیکل انشورنس پلان کے تحت نامزد تھے۔ان اعداد و شمار سے یہ اشارےبھی ملے کہ اگر کسی بچے کا بڑا بھائی یا بہن اے اے ایس ڈی سے دوچار رہا ہے تو اس میں اے اے ایس ڈی کے اضافے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔دوسرے گروپ کے بچوں میں دیکھا گیا کہ ایم ایم آر ویکسین کی وجہ سے بچوں میں اے اے ایس ڈی ہونے کا کوئی خطرہ نہیں پایا گیا۔
جین نے کہا کہ ’’جو بچے ہائی رسک پر تھے ان میں بھی ویکسین کی وجہ سے کوئی برا اثر نہیں ہوا۔ہمیں نہیں پتہ چلا کہ اوٹزم کی کیا وجہ ہے، لیکن ایم ایم آر ویکسین نہیں ہے۔‘‘
جین کے تجزیہ میں پتہ چلا کہ جن بچوں کے بڑے بھائی یا بہن میں اے اے ایس ڈی کی شکایت تھی، ان کی شرح کم تھی کیونکہ والدین کا خیال تھا کہ ميزلس ویکسین اور ڈس آرڈر کے درمیان تعلق ہے۔ دوسرے سروے میں پتہ چلا کہ اے اے ایس ڈی سے دوچار بچوں کے والدین ویکسین کو ہی اے اے ایس ڈی کی وجہ مانتے ہیں۔اس تحقیق کے مطابق اس طرح کے عقائد کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
ایک غلط رپورٹ کا اثر مٹانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ جین کی تحقیق کی طرح محققین کی مزید تحقیق شاید اس طرح کے شک مٹانے میں مدد گار ہو سکے گی۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر < ہمارے صفحہ > کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *