بچوں میں موٹاپے کو روکنے کے لیے 5 آسان طریقے


बच्चों में मोटापे को रोकने के लिए 5 सरल तरीके

Photo: Monkey Business – Fotolia

بچوں میں موٹاپے کو روکنے کے لیے 5 آسان طریقے

بچوں میں موٹاپے کا مسئلہ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے اور اس کا حل اتنا آسان نہیں ہے کہ آپ کم کھائیں اور زیادہ ورزش کریں۔ ہماری زندگی تقریبا غیر فعال ہوتی جا رہی ہے اور جنک فوڈ کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے، ایسے میں کھانے پینے کے طور طریقوں کے ذریعے صحیح سمت میں قدم اٹھاکر ہمیں اچھی عادتیںتو پیدا کرنا ہی ہوں گی۔ یہاں ماہرین کے کچھ تجاویز دی جا رہی ہیں۔

اب ایک نئی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ بچے میں موٹاپا کا خطرہ صرف اس بات سے دور نہیں ہو جاتا کہ وہ کیا کھا رہا ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کس طرح کھا رہا ہے۔ اس تحقیق میں جائزہ لیا گیا کہ کس طرح ماں کا بی ایم آئی (باڈی ماس انڈیکس)، معاشرتی طرزاور کھانے سے متعلق عادات کی وجہ سے بچے کی خوراک فراہم کرنے کے طریقے پر اثر انداز ہوتا ہے۔

نیشن وائڈ چلڈرنس ہوسپٹل میں غذائی محکمہ کی ڈائریکٹر اهوما اینلی نے’’سائینس ڈیلی ‘‘کو بتایا کہ’’پرورش و تربیت کرنے والے اور بچے کے درمیان کھانا کھانے یا کھلانے کے متعلق رویے اور انداز کو بچپن کے موٹاپے کی وجہ کے طور پر سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ہم نے پایا کہ اگر کھانے کے وقت کشیدہ ماحول ہو تو بچے میں کھانے سے متعلق بعد میں غلط عادات پڑنے کی خدشہ رہتا ہے۔‘‘

href=”http://www.sciencedaily.com/releases/2015/05/150513093358.htm” target=”_blank”>

یہاں دیے جا رہے 5 طریقوں پر عمل کرنے سے آپ کے بچے میں کھانے سے متعلق بہترین عادت ڈال سکتے ہیں اور انہیں موٹاپا سے بچا سکتے ہیں۔

ایک قدم پیچھے لیں
اینلي کی تجویز ہے کہ بچوں کو کھانے دیتے وقت کم لینے کیبندش یا زیادہ لینےکے لیے زبردستی نہ کریں۔ آپ انہیں کیا، کس طرح، کب اور کہاں کھانا ہے، جیسے اصول بنا دیں ،لیکن انہیں بھی تھوڑی آزادی دیں کہ وہ آپ کے جسم کی ضرورت کے مطابق اور پسند و اختیارکے مطابق بھی کچھ کھا سکیں ۔

اینلي نے کہا کہ’’جب والدین کھانے کے معاملے میں بہت پابندی لگاتے ہیں تو دو حالات پیدا ہو سکتے ہیں ، اول یہ کہ بچے بھوک نہ ہونے پر بھی کھانا سیکھتے ہیں اور دوسری یہ کہ اس کوشش کی وجہ سے کھانا ضرورت سے زیادہ اہم مسئلہ ہو جاتا ہے اور اس کے دور رس نتائج یہ ہوتے ہیںکہ اس شخص کی زندگی میں کھانے کے تعلق سے منفی اورنا قابل عمل سوچ شروع ہو جاتی ہے۔‘‘

مٹھائی کو انعام کے طور نہ پیش کریں
آپنے کھانے کے تعلق سے اچھی مثالیں بنانا ،آپ کے بچوں کو کھانے کے ساتھ صحت مند طریقے سے جوڑتا ہے۔ اینلی کا مشورہ ہے کہ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی پلیٹ میں دیا گیا پورا کھانا ختم کرنے کے لیےپابند نہیں کرنا چاہئے خاص طور سے اس کے بدلے میںمٹھائی کا لالچ نہیں دینا چاہئے،میٹھے کو کھانے کے ایک حصے کے طور پر رکھیں نہ کہ انعام کے طور پر۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ’’بالکل، آپ کے بچےمیٹھا پہلے کھانا چاہیںگے، لیکن وہ ایسا ایک آدھ ہفتہ ہی کریں گے، اس کے بعد ان کی یہ خواہش خود بخود ختم ہو جائے گی اور وہ میٹھے کو کھانے کے بعد کھانا سیکھ جائیں گے ۔ ‘‘

کم پروسنے سے زیادہ مدد ہوگی
اپنے بچوں کو ان کی بھوک کے بارے میں اندازہ لگانا سیکھنے دیں، تو تھوڑا ہیہی کھانا پروسیں اور ان سے کہیں کہ اور بھوک ہونے پر وہ لے سکتے ہیں۔اینلی کہتی ہیں ’’جب بچے کی بات مانی جاتی ہے تو وہ اپنی بھوک کا اندازہ لگانے میں مزید کامیاب ہوتا ہے ،کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس پر یقین کیا جا رہا ہے۔ یہ کھانے کے سلسلے میں ایک انتہائی مثبت تاثر ہے۔‘‘

بہتر بات چیت کریں
ہر وقت کھانے کے بارے میں ہی بات نہ کرتے رہیں، اگر آپ ہمیشہ کھانے، غذائیت اور کھانے کے وقت کو لے کر ہی بات کریں گے تو آپ کے بچے کو الجھن ہو سکتی ہے، کھانے کو ایک باقاعدہ کام کے طور پر لیں، اس طور پر نہیں کہ اس کے بدلے انعام ملے گا۔

اس کی پسند کی چیز نوٹ کریں
اگر آپ کا بچہ کھانےکے تعلق سے انتہائی حساس مزاج ہے تو اس کی پلیٹ میں ایک چیز ایسی ضرور رکھیں جو وہ شوق سے کھا سکے۔ ایک بار بچہ کو یقین ہو جائے گا کہ کھانا بڑوں اور بچوں کے درمیان کوئی تنازع کا مسئلہ نہیں ہے، تو وہ اپنے آپ آہستہ آہستہ وہ سب کھائے گا جو آپ اسےدیں گے۔مثبت خیال اور صبر رکھیں۔ یاد رکھیں بچے کو تھوڑی سی آزادی دیں اور وہ سیکھے کہ صحت مند کھانے اس کے لئے منافع بخش ہیں۔ کھانے کے تعلق سے صحیح خیال رکھنے اور اچھی مثالیں پیش کرنے سے آپ کے بچے کھانے کے ساتھ صحت مند اور صحیح رشتہ بنا پاتے ہیں ۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *