جنوبی ہند میں ذیابیطس کے مرض میں اضافہ


Photo: Shutterstock

Photo: Shutterstock

جنوبی ہند میں ذیابیطس کے مرض میں اضافہ

بھارت میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔یہ مرض زائد چربی والی غذا اور سست طرز زندگی سے پیدا ہوتاہے۔ اب تک ایسا سوچا جاتا ہے کہ یہ مرض صرف دولت مندوںکو متاثر کرتا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر نتائج حاصل ہوئےہیں کہ شہری غریب بھی اس مرض کے شکار ہیں اور تو اور یہ ہندستان کے جنوب میں زیادہ پایا جا رہا ہے، جہاں سمجھا جاتا ہے کہ بہتر صحت کا منظر نامہ ہے ۔

فوڈ نیویگیٹرایشیا کے مطابق حکومت ہند کے قومی پروگرام این پی سی ڈی سی ایس نے پایا ہے کہ چنئی کی شہری بستی میں ہر چار میں سے ایک کو ذیابیطس ہے۔جبکہ قومی اوسط اس کے ایک تہائی سے بھی کم یعنی 7 فیصد ہے۔ ماہرین مانتے ہیں کہ اس کی وجہ خوراک کی عادات میں آئی تبدیلی ہے۔جو لوگ پیک فوڈ زیادہ کھا رہے ہیں جس سے زیادہ كیلوريز، شکر ، اینمل اور چربی جیسے اجزا شامل ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی اس میں سبزیوں اور پھلوں کے مقابلے بہت کم وٹامن اور معدنی اجزا ہوتےہیں۔

روایتی ہندستانی کھانے کی افراط بھی ذیابیطس کا سبب بن سکتی ہے۔ سیتارام انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریسرچ کے سینئر بچوں کے ڈاکٹر ایچ پی ایس سچدیو نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ ’’یہ تسلیم کرنا غلط ہے کہ صرف برگر اور پيزا جیسے کھانے سے ہی ذیابیطس کا خدشہ بڑھتاہے، مرغن اور تلی ہوئی اشیا کی طرح سموسہ، کچوڑی اور گلاب جامن کھانا بھی اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔‘‘

بھارت کے جنوب میں بڑھ رہی ذیابیطس کی وجہ یہ بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ وہاں کھانے پکانے کے لیے ناریل کے تیل کا زیادہ استعمال ہوتا ہے اور چاول بہت کھایا جاتا ہے۔ناریل کے تیل کی جلی ہوئی چکنائی اور چاول کے کاربوہائیڈریٹ والی اس غذا کے انداز کے ساتھ ضروری ہے کہ متوازن مقدار کا خیال رکھنے کے ساتھ ہی جسمانی سرگرمیوں اور ورزش پر توجہ دی جائے۔ تحقیق کے مطابق سفید چاول کے استعمال سے ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کا خدشہ بڑھتاہے۔مضمون کے مطابق ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ایک تحقیق میں پایا گیا ہے کہ جو لوگ دن میں تین یا چار مرتبہ مخصوص مقدارمیں چاول کھایا کرتے ہیں ان سے ان لوگوں کے مقابلے میں ذیابیطس کا خدشہ ڈیڑھ گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے جو ، کم چاول کھاتے ہیں۔

لوگوں کے اس طرح کے کھانے کے ذرائع اور انداز سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں ذیابیطس بڑھ رہی ہے اور کیوں یہ شمالی بھارت کے مقابلے جنوب میں زیادہ ہے۔اس کے ساتھ ہی ملک کی خوراک سے متعلق عادات کو لے کر اپ ٹو ڈیٹ سروے کرائے جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ آخری بار ضلع سطح پر کیا گیا غذائیت سروے 2013 میں جاری ہوا تھا۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *