Margaret Hamilton (بائیں) اور تجرباتی ISRO کےراکٹ سائنسداں (دائیں)
نیا میں زیادہ تر لوگ سوچتے ہیں کہ سائنس مردوں کی اجارہ داری کا میدان ہے، لیکن خوش آئند خبر ہے کہ یہ سوچ بدل سکتی ہے۔ترقی کی رفتار اگرچہ سست ہے، لیکن کلاس روم اور کام کی جگہوں پرخواتین سائنسدانوں کو دیکھنے سے سائنس کے میدان میں مردوں ہی کی طرح خواتین کےشعور میں اضافے کی صورت سامنے آ رہی ہے ۔
امریکہ کی نارتھ ویسٹرن يونورسٹی کے محققین کی تحقیق میں پایا گیا کہ سائنس کو مردوں کے وابستہ کرنے کی منطق دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ یہ صورت حال ان ممالک میں بھی ہے جہاں کالجوں، یونیورسٹیوں کے ساتھ ہی سائنس سے متعلق تحقیق کے میدان میں كام کرنے والوں میں نصف تعداد خواتین کی ہے ۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ نیدر لینڈ کے لوگوں نے سائنس کو مردوں کے تسلط والا علاقہ مزیدسخت انداز میںسمجھا۔دیگر علاقوں میں بھی صنفی مساوات کے حامی ممالک جیسے ڈنمارک، نیدر لینڈ اور ناروے میں اس طرح کی سوچ کی ایک عام وجہ یہ ہو سکتا ہے کہ یہاں واقعی خواتین کے مقابلے مرد سائنس کے میدان میں زیادہ تعداد میں شامل ہیں۔
اس تحقیق کے سربراہ مصنف اور نفسیات میں ڈكٹورل طالب علم ڈیوڈ آئی ملر بتاتے ہیں ’’ ڈچ مرد سائنس اور تحقیق کے معاملے میں ڈچ خواتین کو درکنار کر دیتے ہیں اور یہ تناسب ایک چوتھائی ہیں، نیدرلینڈ میں اس کی سخت مخالفت کی وجہ اصل میں یہاں سائنس میں مردوں کی کثیر تعداد ہونا بھی ہے ۔
دوسری طرف، ارجنٹائن اور بلگاريا میں تقریبا آدھے لوگ اسی طرح کے سخت رویے کی عکاسی کرتے ہیں، جبکہ یہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سائنس اور تحقیق کے شعبے میں نصف تعداد خواتین کی ہے۔
تحقیق میں امید کی وجہ ہے ،کیونکہ جہاں سائنس کے شعبے میں خواتین کا تناسب زیادہ ہے وہاں یہ سخت رویہ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔
نارتھ ویسٹرن میں نفسیات کے پروفیسر اور تحقیق کے شریک مصنف ایل ایس ایچ اگلي کے مطابق، ’’سائنس کے تعلق سے جنسی جانبداری کی سوچ کو مٹانے میں کالج کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزیدکہا کہ’’ مثال کے طور پر، جو لوگ خواتین کے سائنس کے شعبے میں غیر مساوی نظریہ رکھتے ہیں ، ان کے رویہ کی سختی ختم ہوجانا چاہئے۔‘‘
’’کالج میں ریاضی کا نصاب ایک ٹیچر سے پڑھنا اس طرح کے دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے میں کافی نہیں ہوگا ۔‘‘ وہ با خبر کرتی ہیں کہ ’’ اس طرح کے عقائد کو تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین سائنسدانوں کے بارے میں لوگوں کو بہت سے ذرائع جیسے خبروں، ٹی وی شو اور نصابی کتابوں سے علم ہو۔‘‘
اس مطالعہ میں کل 66 ممالک کے قریب 350000 کے قریب لوگوں سے ملی معلومات کا تجزیہ کیا گیا،تو اس تحقیق میں ہندستان کو شامل نہیں کیا گیا۔یہ اعداد و شمار ایک ویب سائٹ سے جٹائے گئے ہیں ،جس میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ مردوں اور عورتوں کی وابستگی سائنس کے ساتھ کس طرح دیکھتے ہیں؟اس کے ساتھ ہی، ویب سائٹ نے یہ اندازہ بھی کیا کہ لوگوں نے سائنس جیسے ریاضی اور طبیعیات لفظ کتنی جلدی مذکریعنی لڑکے اور مرد کے ساتھ وابستہ کر دیا، اسی طرح کے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ لوگوں میں کس طرح کے سخت نظریات پائے جاتے ہیں۔ شرکاء سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ وہ مردوں اور عورتوں میں سے کسے سائنس میں زیادہ مفید و قابل سمجھتے ہیں۔
یوسی برکلے کی مارسیا سی لن بھی تحقیق کے مصنفین میں شمار ہیں۔ یہ تحقیق رپورٹ’ جرنل ایجوکیشنل سائكولوجی ‘میں شائع ہوا ہے۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔