ایک کپڑے پر ہنگامہ ،کیا نیلاہی کالا ہے؟


TheDress-corrected
ایک کپڑے پر ہنگامہ ،کیا نیلاہی کالا ہے؟

فروری 2015 میں ایسا لگا کہ دنیا لباس کے رنگ کو لے کر لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئی! ہاں یہ مبالغہ ہی ہے لیکن انٹرنیٹ ہے تو عین مطابق کی امید کون کرتا ہے، لیکن، نيوزپاي نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیوں کچھ لوگ جسے نیلا یا سیاہ دیکھتے ہیں، اسے ہی دوسرے سفید اور سنہراکس طرح دیکھتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک دو دنوں میں ہی ایک کپڑے کی تصویر پھیل گئی( وائرل ہو گئی)۔ وائرڈ میگزین نے ایک مضمون میں ایک لباس کی تصویر پوسٹ کی تھی ،جسے دو طرح ایڈجسٹ کیا جا سکتا تھا، ایک تو اس کی آستین سفید کرکے اور دوسرے اس کی نیک لائن کو سیاہ کر کے۔ عملی طور لوگوں کا دماغ بھی ایسے ہی کام کر رہا ہے۔ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کے وقت میں انسان کی نظر کی ترقی ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چیزیں رنگ نہیں بدلتي لیکن ہمارا دماغ مختلفانداز میں روشنی کے اثرات سے متاثر ہوتا ہے،مثال کے طور پر جنوری 2014 کے جرنل آف وژن میں شائع تصاویر کی سیریز دیکھیں۔عمارت کی دیوار سفید ہے، جو صبح 11 بجے کی تصویر میں سب سے زیادہ واضح نظر آتی ہے لیکن لوگوں نے جب یہ مختلف وقت میں دیکھا تو کہا کہ سفید ہے لیکن اتنی نہیں جتنی صبح 11 بجے نظر آئی تھی۔

 

لباس کے معاملے میں، سائنسدانوں نے بتانے کی کوشش کی کہ کیا ہوا۔’ کرنٹ بائیولوجی جرنل‘ میں شائع 3 صفحات میں بتایا گیا کہ مختلف لوگوں نے مختلف رنگ کیوں دیکھے۔

پہلےمشاہدے میں، امریکہ کی نیواڈا يونورسٹی میں ماہر نفسیات مائیکل ویبسٹر نے نیلے رنگ کی مستحکم مقام کو وجہ مانا۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر لوگ نیلے رنگ کے تعلق سے واضح طور پر طے نہیں کر پاتے کہ وہ شے بذات خود نیلی ہے یا کسی اور رنگ کی ہے جس پر نیلے رنگ کی روشنی پڑ رہی ہے۔ دوسری طرف سرخ رنگ کے معاملے میں یہ مشکوک نہیں ہوتے۔کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ سفید کاغذ ہے جس پر سرخ رنگ کی روشنی پڑ رہی ہے لیکن یہی عمل دوسرے رنگوں کے ساتھ آسان نہیں ہوتا جیسے نیلے رنگ۔

نیو یارک ٹائمز کے مضمون کے لنک کے مطابق،تجربہ کے طور پر، ویبسٹر نے کالج کے طالب علموں سے پوچھا کہ لباس کی دھاریاں انہیں نیلی نظر آرہی ہیں یا سفید؟ نتیجہ کچھ اور ہی نکلا۔ پھر جب لباس کے رنگ کوتبدیل کیا گیا تو نیلے ، سفید واضح طور پر پیلے رنگ کے شیڈ میں تبدیل کر دیے گئے اور 95 فیصد طالب علموں نے کہا کہ لباس پیلا اور سیاہ ہے۔

جرمنی کی گسین يونورسٹی کے ماہرنفسیات کارل گیگین فرٹرنرنے ایک مختلف تجربے میں ایڈجسٹ کیےجا نے والے کلر وہیل پر ایک کپڑا رکھ کر 15 رضاکاروں سے اس کا رنگ شناخت کو کہا۔

ان کے مطابق، طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک لباس کے پکسلز نیلے اور پیلے رنگ کے قدرتی سپیکٹرم کے ساتھ میچ ہوئے۔ یہ لوگوں کے لیے مشکوک موضوع ہو گیا اور روشنی کے اثرات کی وجہ سے وہ رنگ سمجھ نہیں سکے۔ اس لیے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مختلف لوگ مختلف زاویے کیا انداز سے قدرتی روشنی دیکھتے ہیں اس لیےکچھ لوگوں کو کپڑے سفید اور سنہری نظر آے جبکہ وہ نیلے اور سیاہ تھے۔

ویلے سلي کالج کے نیورو سائنسدان بیول کالوے نے تیسرا تجربہ کیا۔ انہوں نے 1400 سے زیادہ لوگوں کو کپڑے دکھائے اور انہیں رنگ نوٹ کرنے کو کہا۔ اس کے استعمال میں ایسے 300 لوگوں کو شامل کیا گیا جنہوں نے وہ لباس پہلے نہیں دیکھے تھے۔

دیکھا گیا کہ شرکاء صرف ‘نیلے ،سیاہ ، ‘سفید اور سنہرےکے درمیان منقسم نہیں تھے بلکہ کچھ نے کپڑے کا رنگ ‘نیلے اور بھورا بھی بتایا. زیادہ عمر کے لوگوں کو کپڑے سفید اور سنہری دکھائی دیےجبکہ کم عمر کے لوگوں کو نیلے اور کالے۔

ڈاکٹر كنوے نے کہا کہ امیج کی خراب كوالٹی دماغ کے اندرونی نظام کو اپنے حساب سے یکجا ہونے کا موقع دیتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مخصوص حالات اور حوالوں کا فقدان بھی اہم ہے کیونکہ آپ کے دماغ کے پاس کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے کافی معلومات نہیں ہوتی۔

ہر شخص کے دماغ کا اندرونی حصہ مختلف انداز سے متحرک ہوتا ہے، ڈاکٹركنوے نے کہا کہ جس نے لباس کا رنگ سفید اور سنہری دیکھا اس کے دماغ کی اندرونی نظام نے مان لیا کہ وہ کپڑے کو نیلے آسمان کے تلے دیکھ رہا ہے۔ جن لوگوں نے نیلا اور سیاہ دیکھا، ان کے اندرونی نظام نے اس طرح مانا کہ لباس روشن نارنگی کی روشنی میں ہے۔

اتنے ہیتجربات نہیں ہیں، بلکہ جرنل وژن نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک مکمل تحقیق پر توجہ مرکوز کریں گے، مقالہ جمع کرنے کی آخری تاریخ یکم جولائی 2016 ہے اس لیے اور بھی تحقیق کر رہے ہیں اور جاننے کے لیے ہمیں تھوڑا صبر سے کام لینا ہوگا ۔

گر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *