ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو پسند کرنے والوں کو اس کا علم ہو کہ بھارتی قانون میں گلیوں کے کتوں کو بھی حق دیے گئے ہیں۔اگر اگلی بار کسی کو کتوں کو پیٹتے ہوئے یا کسی بھی قسم کی زیادتی کرتے ہوئے دیکھیں تو آپ اسے بتا سکتے ہیں کہ تعزیرات ہند کے تحت اس حرکت کے لیے اسے مجرم گردانا جا سکتا ہے۔
بھارت میں کوئی قانون نہیں ہے جو لاوارث کتوں کو کھانے دینے سے کسی کو روکے تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں قانونی طور سے بالکل نہیں روکا جا سکتا۔
گلیوں کے کتوں کو اپنے علاقے میں رہنے کا حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کتا آپ کے علاقے میں ہے تو آپ اسے وہاں سے بھگا نہیں سکتے یا اسے کہیں اور چھوڑ کر نہیں آ سکتے۔
امریکہ میں، ناپسندیدہ کتوں کی میونسپل اورنجی سطح پر کام کرنے والے ادارے جانوروںکو شیلٹرو کی طرف ذبح کیا جاتا ہے۔کوڑھ اورکسی بھی قسم کی طبی مدد سے ٹھیک نہ ہونے کی صورت میں، بہت سے کتوں کو شیلٹرو میں جگہ کافی نہ ہونے پر مار ڈالا جاتا ہے۔ اس طرح کی حرکت کے لیے بھارت میں منظوری نہیں ہے،۔یہ کہنا ہے گلیوں کے کتوں کو مدد اور ویکسین (ٹیکہ) مہیا کرانے والے ادارے اوربیداری کی ویب سائٹ بھی ہے۔ کسی علاقے میں رہنے والے کسی شخص کے کہنے پر گلی کے کتے کو وہاں سے اٹھانے کی اجازت بھی میونسپل اداروں کو نہیں ہے۔
کچھ لوگ فکر مند ہو سکتے ہیں اور بحث کر سکتے ہیں کہ ناپسندیدہ کتوں کی آبادی حد سے بڑھ رہی ہے اور انہیں کھانا دینا مسئلہ بن سکتا ہے، لیکن پھر بھی، مثبت طریقے سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
بیداری کے مطابق، اینمل برتھ کنٹرول پروگرام کے تحت جانوروں ویکسین لگانااور انہیں بانجھ کرنا ناپسندیدہ جانوروں کی آبادی کنٹرول میں رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ اے بی سی کے پروگرام کے تحت مختلف ادارے گلیوں کے کتوں کو لے جاکر ربيز کے خلاف ان کا ویکسین اور خروج (نسبندی) کرکے انہیں پھر اسی علاقے میں چھوڑ سکتے ہیں۔
بھارت کے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق، جانوروں کے ظلم تحفظ ایکٹ 1960 کے سیکشن 38 کے تحت، اینمل برتھ کنٹرول رولس 2001 کی دفعات کے مطابق ہی ان کے کام کرنا چاہئے۔
کتوں کے ویکسین اور نسبندی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ جنسی عمل نہیں کریں گے اور دوسرے کتوں اور انسانوں کو ان سے کوئی بیماری نہیں گے۔ چار ماہ سے بڑی عمر کے کتوں کو نسبندی کے لیےاٹھایا جا سکتا ہے، جس سےناپسندیدہ کتے نسبندی کی جا چکی ہو، اس کی شناخت کے لیے اس کے دائیں کان پر ایک کٹ یا نشان بنایا جا سکتا ہے شناخت کے لیے۔
ریبز پر عالمی ادارہ صحت کے ماہر سلاهاكارو کے حوالے سے 2014 کی ایک رپورٹ میں ذکر ہے ’’ 1960 سےربیزی ویکسین کے ساتھ اے بی سی کے پروگرام شروع ہونے کے ذریعے ناپسندیدہ کتوں کی آبادی اور وسط ایشیا میں انسانوں میں ريبیز کے خطرےکو کنٹرول کیا جانا تھا۔
اس کا مقصد ایسے کتوں کی آبادی میں کمی کے ساتھ ریبيز کے خطرے والے کتوں کی تعداد کم بھی تھی، ساتھ ہی، نر کتوں کے تشدد آمیز رویے جیسے پہلوؤں کو بھی کم کرنا تھا جس ریبيز پھیلتا ہے۔ ان پروگراموں کے دوران کتوں کی افزائش نسل کے طریقے کو ختم کرنے کا نتیجہ الٹا اس لیے بھی ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ نسبندی اور ویکسین شدہ کتے ہی ختم ہو جائیں۔‘‘
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔