کیونکہ ہم ٹھیک سے بول لیتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ہم اچھی گفتگو پر عبور رکھتے ہیں ۔بولنے کے ساتھ ہی سننا اور سمجھنا بھی مؤثر مواصلاتی نظام کے لیے ضروری ہے۔ اب سائنسدانوں نے اس کا ایک راستہ تلاش کر لیا ہے۔ انہوں نے محسوس کیا ہے کہ جو بچے مسلسل ایک سے زیادہ زبان سے واقف ہوتے ہیں ، وہ بہتر انداز سے رابطے کر پاتے ہیں۔
محققین نے پایا کہ جو بچے کئی زبانوں کے ماحول میں پرورش پاتےہیں، وہ ان بچوں کے مقابلے میں ایک مقرر کو بہتر سمجھ پاتے ہیں جو ایک ہی زبان یا اپنی مادری زبان ہی گفتگو کرتے ہیں. ان بچوں کا خود کئی زبانوں پر عبور ہونا ضروری نہیں ہے،مواصلات ہنر پیدا کرنے کے لئے دوسری زبان کا تھوڑا بھی علم یا رابطہ معان ہوتا ہے۔
اس مشاہدے میں 4 سے 6 سال کے بچوں کو بالغوں کے ساتھ ایک کھیل میں شریک کر کے استعمال کیا گیا۔ ایک میز پر بچے بڑوں کے سامنے بیٹھے اور بڑوں نے ایک بورڈ پر رکھی کچھ چیزیں گھمانے کو کہا، چونکہ بالغ افرادوہ چیزیں مکمل طور پر نہیں دیکھ پا رہے تھے اس ہدایات بھی کچھ مبہم انداز میں دے رہے تھے، تو بچے کو سمجھنا تھا کہ کس چیز کو گھمانے کو کہا جا رہا ہے۔
کھیل میں بچوں کے تین گروپ تھے۔ پہلے گروپ میں وہ بچے تھے جو ایک ہی زبان جانتے تھے ،یعنی صرف انگریزی بول سکتے تھے اور دوسری زبانوں کا تھوڑا ہی تجربہ تھا۔ دوسرے گروپ کے بچوں کی بولنے اور سننے کی زبان انگریزی ہی تھی لیکن وہ باقاعدگی سے دوسری زبانوں کے مقررین کے رابطہ میں تھے اور تیسرے گروپ کے بچے دو لسانی تھے یعنی وہ دو زبانیں بولنے اور سمجھنے کے ساتھ ہی باقاعدگی سے سننے سمجھنے کی مشق کر رہے تھے ۔
محققین نے پایا کہ ایک زبان جاننے والےبچے بالغ افراد کی جانب سے دی جانے والی ہدایات سمجھنے میں بہت اچھے نہیں تھے اور 50 فیصد ایسا ہوا کہ انہوں نے صحیح چیز گھمائی۔ دوسرےگروہ کے بچوں میں اس کی قابلیت زیادہ نظر آئی اور انہوں نے 76 فیصد صحیح گھمائی وہیں، دو لسانی گروپ کے بچوں کے 77 فیصد درست کیا ۔
محققین نےیہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک سے زیادہ زبانوں کے مسلسل رابطے میں رہنے سے مواصلاتی ہنرمیں اضافہ ہوتا ہے اور سماجی تجربہ بھی وسیع ہوتا ہے۔ بھارت میں، چونکہ بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں، تو دوسری زبانوں کے رابطے میں رہنا اور بھی آسان بھی ہے۔
شکاگو يونورسٹی میں نفسیات کے ماہرپروفیسر اور زبان اور سماجی ترقی کی ماہر کیتھرین كزلر کا کہنا ہے کہ’’ کئی زبانوں کےماحول میں رہنے والے بچے سماجی طرز عمل کو زیادہ سمجھتے ہیں کہ کون، کس سے کیا کہہ رہا ہے، اور زبان کی بنیاد پر سماجی طرز عمل کے تعلق سے ان کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ معاشرے زبان کی بنیاد پر تجربہ بچوں کو لوگوں کے تئیں احساس اور سمجھ پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے جس سے ان کی مواصلاتی صلاحیت بہتر اور مؤثر ہوتی ہے۔‘‘
تحقیق کے شریک مصنف اور شکاگو يونورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر بوازعفران نے کہا کہ ’’زبان سیکھنے میں بچے بہت قابل ہوتے ہیں۔ وہ زبان کے الفاظ اور جملے جلدی سیکھتے ہیں لیکن مواصلاتی نظام مؤثر کرنے کے لیے اور بھی طریقے ضروری ہوتے ہیں۔ زیادہ مواصلاتی چیزوں کو سمجھنے کے بارے میں ہے، جو ہمارے مطالعہ میں دیکھا گیا۔ ‘‘ یہ تحقیقاتی رپورٹسائیکلوجیکل سائنس میں شائع ہوئی ہے۔
href=”http://www.psychologicalscience.org/index.php/news/releases/children-exposed-to-multiple-languages-may-be-better-natural-communicators.html” target = “_ blank”>
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی