جنسی تناسب: تاریخ گواہ ہےمردوں کی پیدائش زیادہ ہے
دنیا بھر میں، گزشتہ چند سو برسوںکے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنسی تناسب میں شرح پیدائش مردوں کی زیادہ رہی ہے۔ کیونکہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کی شرح اموات زیادہ ہوتی ہے لہٰذا یہ قدرتی توازن سمجھا جاتا ہے۔لیکن آخر یہ کیا ہو رہا ہے کہ جنسی فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
امریکہ میں پیو ریسرچ سینٹر < کے مطابق، تاریخی طور پر ہر 100 لڑکیوں پر لڑکوں کا تناسب 105 ہے۔ورلڈ بینک کا 2011 کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پیدائش کے لحاظ سے ہر 100 لڑکیوں کے تناسب میں 107 لڑکے پیدا ہوئے۔
href=”http://www.pewresearch.org/fact-tank/2013/09/24/the-odds-that-you-will-give-birth-to-a-boy-or-girl-depend-on-where-in-the-world-you-live/”
اس فرق کے بڑھنے کی بنیادی وجہ چین کو سمجھا جا سکتا ہے جہاں ہر 100 لڑکیوں 118 لڑکوں کی پیدائش ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اور کہیں اس طرح جنسی تناسب نہیں پایا جاتا۔ ایشیا اور كانکےسس کے کئی ممالک میں نوزئدہ لڑکوںکی تعداد اوسط سے زیادہ ہے لیکن چین چونکہ سب سے بڑا مردم خیز علاقہ ہے کیونکہ یہاں دنیا بھر کی آبادی کا 12 فیصد پیدا ہوا ہے۔
ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، آذربائیجان، آرمینیا، جارجیا، جنوبی کوریا اور سولومن جزائر میں اس کے بعد جنسی تناسب میں سب سے زیادہ فرق ہے.۔بھارت کا نمبر ساتواں ہے جہاں ہر 100 لڑکیوں پر 108 لڑکے ہیں۔ اسی کے ساتھ پر مقدونیہ، مٹینےگرو، پاپوا نیو گنيا، ساموا، سربیا اور سورینام بھی ہیں۔
بین الاقوامی کانفرنس میں جنس تناسب کو فی لڑکا / فی عورت یا فی لڑکا / فی عورت ضرب سو کے حساب سے دکھایا گیا وہیں حکومت ہند نے یہ اعداد و شمار فی 1000 مردوں پر عورتوں کی تعداد کے نظام سے دکھائے، ورلڈ بینک کی جنس تناسب اعداد و شمار کے حساب سے بھارت میں 100 خواتین پر 108 مرد ہیں جبکہ بھارتی نظام کے حساب سے فی 1000 مردوں پر عورتوں کی تعداد 926 ہے۔ حکومت ہند کے اعداد و شمارواضح تصویر پیش نہیں کرتے۔ ہندستان ٹائمز میں 2013 میں شائع ایک مضمون میں گمنام حکومت رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ 2009 میں جنسی تناسب کم ہوکر 893 رہ گیا ہے۔ بین الاقوامی نظام حساب کے مطابق 100مردوں کے تناسب میں خواتین کے تناسب میں112خواتین ہیں ۔
ایسا نہیں ہے کہ اس معاملے میں ہر جگہ لڑکیاں پیچھے ہیں۔ جبکہ لڑکوں کی تعداد کئی جگہ زیادہ ہے، کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں جنسی تناسب کاتوازن بہت اچھا ہے۔ صحرائےافریقہ کے كچھے ممالک میں جنسی تناسب ٹھیک ہے جیسے راڈا، سیرا لیون، ٹوگو، زمبابوے، آئیوری کوسٹ اور مڈغاسکروغیرہ۔
اس تناسب کے فرق کی ایک اہم وجہ جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کو سمجھا جاتا ہے۔ ایشیا میں لڑکے کی پیدائش کو ترجیح دیئے جانے کا واضح ذکر ہو چکا ہے لہذا س لیے یہاں کے ممالک میں لڑکوں کی زیادہ پیدائش ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے.
اس کے علاوہ کچھ حیاتیاتی جزو بھی جنسی تناسب کو متاثر کرتے ہیں۔مثال کے طور پر، تحقیق کے مطابق زیادہ عمر کے والدین میں لڑکا پیدا کرنےصلاحیت کم ہوتی ہے۔ اس لیے افریقی ممالک میں لڑکیوں کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کثیر بیوی کا رواج بھی عام ہے۔ دونوں صورتوں میں فریقین کی کم تعداد کا جواز سامنے آتا ہے۔مطالعہ یہ بھی عکاسی کرتا ہے کہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد لڑکوں کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بھی دوسرے فریق کی شرح پیدائش کو سمجھا جا سکتا ہے۔
لیکن دیگر معاملات میں، ورٹائم کو نو زائدہ لڑکیوں کی تعداد بڑھنے سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریہ کی وجہ زچگی کےتناؤ کو سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسقاط حمل کا خطرہ بڑھتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ نر (لڑکا) کےجنین زیادہ تر اسقاط حمل کے شکار ہوتے ہیں۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی