بچے کو خود اعتماد بنانے کے لیے پیچھے ہٹ جائیں


Photo: Shutterstock

क रवैया अपनाते हैं।

Photo: Shutterstock

بچے کو خود اعتماد  بنانے کے لیے پیچھے ہٹ جائیں

آپ کے بچے اسکول کی زندگی یا اپنے دوستوں کے حلقےمیں زیادہ مداخلت سے آپ کے بچے کے مسائل اورمایوسی کی کیفیت سے اپنے آپ لڑنے کا سبق نہیں سیکھ سکتے۔ آج کل والدین بچے کو ذرا سی مشکل ہونے پر ہی اس کے حل کے لیے بیتاب ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں، جبکہ بچوں کو ایک حد تک خود ہی ان مسائل سے نمٹنے کا موقع دیا جائے تو وہ اپنے مستقبل اور زندگی کے لیے ذاتی تجربے کے ساتھ اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔
پانامہ سٹی، فلوریڈا میں كلنكل مینٹل ہیلتھ کاؤنسلر اور ایک اسکول کاؤنسلر تھامس ونٹرمین نے’ یاہوپیرنٹنگ ‘کو بتایا کہ ’’میں جس اسکول میں کام کرتا ہوں، وہاں والدین بچے کو تھوڑا بھی مشکل میں دیکھ کر سامنے آ جاتے ہیں، اسکول کے حکام سے رابطہ کرتے اور کم مارکس حاصل کرنے پر اسکول کے اساتذہ پرتنقید کرتے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہ صحیح ہے کہ تمام والدین اپنے بچوں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں لیکن اس طرح کی دخل اندازی کی وجہ سے بچے اپنے مسائل کےحل خود نہیں تلاش کرپاتے اور ایک خود کفیل بالغ بننے میں مشکل محسوس کر سکتے ہیں۔‘‘
جو والدین اپنے بچوںکے تعلق سے مزید حفاظتی یا دخل اندازی والا رویہ اپناتے ہیں، ان ہیلی کاپٹر پیرنٹس کہا جاتا ہے۔ سرپرست ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں، اس کی کچھ وجوہات یہاں دی جا رہی ہیں:
مستقبل کی فکر:
سرپرست اکثر یہ سنتے رہتے ہیں کہ یہ مقابلہ کی دنیا ہے، تو وہ اپنے بچوں کو مقابلہ کے لیےتیار کرنے کے تعلق سے زیادہ سے زیادہ مداخلت کرتے ہیں۔
نقصان کا خدشہ:
بچے کو جسمانی یا ذہنی طور پر نقصان ہونے کا خدشہ ایک وجہ ہے کہ سرپرست ضرورت سے زیادہ خائف رہتے ہیں اور تحفظ کی جانب توجہ دیتے ہیں ۔
اپنی پرورش کی رائے:
جو والدین یہ مانتے ہیں کہ بچپن میں ان پر توجہ نہیں دی گئی یا وہ محبت سے محروم رہے، وہ اپنے بچوں کو ضرورت سے زیادہ دلارتے ہیں۔
دیگر والدین کا اثر:
دوسرے والدین کو ان کے بچوں کی جانب زیادہ توجہ دیئے جانے کی وجہ سے کچھ والدین خود کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں اور متاثر ہو کر ویسا ہی برتاؤ کرنے لگتے ہیں۔
والدین کا بچوں کے تعلق سے حفاظتی رویہ کیوں ہے، یہ سمجھا جا سکتا ہے لیکن ضرورت یہ سمجھنے کی ہے کہ کیا اس رویے سے بچوں کو واقعی مدد ملتی ہے۔ جو والدین بچوں کو بات بات پر تعاون یا مشورہ دیتے ہیں، صحیح فیصلے لینے کے بارے میں احتیاط کی ہدایت دیتے ہیں اور مسائل حل کرتے ہیں، وہ شاید اپنے بچوں کو اپنی جنگ لڑنے کے لیےتیار نہیں کرتے۔
بچوں کے ماہر مانتے ہیں کہ بچوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کا ہر مسئلہ حل کردیا جائے، بلکہ والدین کو یہ سکھانا چاہئے کہ زندگی کے اچھے اور مشکل لمحات سے کیسے گزرا جاتا ہے۔ آپ انہیں جتائیں کہ آپ کے تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن مسئلہ کاحل انہیں ہی تلاش کرناہے ،تو بچہ شاید زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے اور جذباتی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے۔
نیویارک میں طبی ماہرنفسیات جےنیٹ سير کوہن کا کہنا ہے کہ ‘’’ والدین بچوں کے استاد ہوتے ہیں، اگر والدین تمام دن انہیں بچاتے رہیں گے تو بچے اپنی مشکل سے گزرنا اور ابھرنا کس طرح سیکھ پائیں گے ۔‘‘
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر آپ کا بچہ مشکل میں ہے تو آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ ان سےاس صورت حال کے بارے میں بات کریں اور اور اسے حل کرنے کے خیال کے بارے میں بھی۔ان کےطریقے کو سنیں اور آپ کے خیالات بھی بتائیں،انہیں مشکل سے جوجھنےکے لئے کہیں اور یہ بھی کہیں کہ ضرورت پڑنے پر آپ ان کے ساتھ ہیں۔
ونٹر مین کہتے ہیں کہ’’اس طرح، پوزیشن قابو سے باہر ہونے پر آپ اپنے بچوں کی حفاظتی ڈھال بن سکتے ہیں ۔‘‘ اگر مشکل بڑھ جائے یا آپ کے بچے استحصالکا شکار محسوس کریں، تواس وقت ضروری ہے کہ سرپرست کی حیثیت سےدخل دیں۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *