بچوں میں ڈپریشن کی علامات
عام طور پر مایوسی یا فکر و تردد کو بالغوں کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے ،لیکن یہ بچوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے رویے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں اور والدین کو اس کے حل میں بڑی کشمکش ہو جاتی ہے ،اگر وہ اس صورت حال کی صحیح وجہ نہیں سمجھ پائیں ۔ اگرسرپرست کچھ غیر معمولی رویے پر توجہ دیں ،تو بچوں کو اس کی فکر اور مایوسی کی کیفیت سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ میں تذکرہ ہے کہ حال میں ختم ہوئے ودربھ ماہر نفسیات تنظیم کے سالانہ کانفرنس میں بچوں کی رویے مسائل اور ان وجوہات کو زیر غور رکھ کر بحث کی گئی۔ ممبئی کے نائر ہسپتال کے ڈاکٹر هینل شاہ نے کہا ‘کہ ’’ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بچے ڈپریسڈ نہیں ہو سکتے، لیکن ہم 6 سال کی عمر کے بچے دیکھ رہے ہیں جو ڈپریشن کا شکار ہیں۔ان مسائل کی وجہ سے تعلیمی کارکردگی میں کمی سے لے کر خودکشی کے خیالات تک سامنے آ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ایسے بچے اس ماحول میں رہتے ہیں جہاں ان کے والدین بھی ڈپریسڈ ہیں، خاص طور پر مائیں اور اس طرح کے معاملات میں اگر جلدی بچوں کے مسئلہ کا پتہ چل جائے تو بہتر مدد کی جا سکتی ہے۔‘‘
ان ماہرین کے مطابق، آج کی دنیا میں بچے میڈیا اورجدید تکنیک کی وجہ سے زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں اور اپنی ذہنی صلاحیت سے زیادہ توجہ حاصل کر رہے ہیں، اس کے ساتھ ہی اسکولوں میں بہتر تعلیمی کارکردگی کے دباؤ، اپٹوڈیٹ ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کی اپنی نسل کے مقابلہ اور ادارے و سماجی رویے کی وجہ سے بچے جبر اور تناؤ محسوس کرتے ہیں۔
اس معاملے میں خاندان کے ڈھانچے میں آئی تبدیلی کے بار میں بحث کرتے ہوئے نائر ہسپتال کی ہی ڈاکٹر الکا سبرامنیم کہتی ہیں کہ ’’طرز زندگی اور خاندانی مساوات تیزی سے بدل رہے ہیں۔مشترکہ خاندانوں سے مربوط خاندان اور اب ایسے خاندان ہیں جہاں دونوں والدین بر سر روزگار ہیں ۔‘‘
ان ماہر نفسیات اور برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی ویب سائٹ کے مطابق ڈپریشن کے کچھ اشارہ اس طرح ہیں:
قدرتی طور پر بچہ ناخوش یا اداس موڈ میں لگتا ہے،چلانا یا چڑچڑا ہونا اور وہ بھی بے وجہ، اس معاملے کی بھی کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔
زندگی کے کسی بڑا واقعہ بھی ایک اور وجہ ہو سکتا ہے جیسے کسی قریبی رشتہ دار کی موت وغیرہ جو طویل عرصے تک دماغ کو متاثر کرتی ہے۔
پہلے جن چیزوں یا سرگرمیوں میں دلچسپی رہی، اس کے رجحانات کم ہونا اور اسکول یا گھر میں ٹھیک طرح سے کام نہ کر پانا۔
سماجی سرگرمیوں اور دوستوں کے ساتھ بات چیت وغیرہ میں کمی آنا۔
بہت کم نیند یعنی انسومنيا۔
ڈاکٹر سبرامنیم نے زور دیا کہ کم نیند کی وجہ سے بھی بچوں میں جذباتی تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ایشیائی ممالک میں یہ عام بات ہے کہ بچے اکیلے نہیں بلکہ والدین کے ساتھ سوتے ہیں۔ ایسے بچوں میں نیند میں چلنے کی عادت، سونے میں آنا کانی، وغیرہ سے متعلق مسائل جیسے موڈ بدلنا، چڑچڑاپن اور جذباتی رویہ اختیارکرنا مسلسل پریشان رہنے کی وجہ سے والدین اور ان کے ازدواجی تعلقات پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔‘‘
لندن کی ماہر نفسیات ڈاکٹر نوينا ایونز کا مشورہ ہے کہ اگر آپ کے بچے میں ڈپریشن کی علامات کا زیادہ اظہار ہو رہا ہے، تو اس سے بات چیت کر کے وجہ جاننا سب سے آسان اور اچھا طریقہ ہے نہ کہ تکلیف کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔اگر انہیں کسی بات کا مسئلہ ہے تو اس پر غیر سنجیدہ رویہ اختیار نہ کریں کیونکہ آپ کے لیے جو معمولی بات ہے، ان کے لیے وہ بہت اہم ہو سکتی ہے۔‘‘
اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو اور مدد کی ضرورت ہے تو کسی بچوں کے ماہر یا بچوں کے ماہر نفسیات کی مدد لیں۔ پایا گیا ہے کہ اطمینان بخش طریقہ علاج پر عمل کیے جانے پر جو مشکلات بچوں سے بات چیت کر کےحل ہو جاتی ہیں اس سےبچوں کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ جذباتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور ڈپریشن یا مایوسی کی کیفیت کے بڑھنے کو روکا جا سکتا ہے۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔