بھاری اسکولی بستے؟ آپ کچھ کر سکتے ہیں


School backpack too heavy? Here's what you can do

Photo: ImagesBazaar

اکثر یہ دکھائی دیتا ہے: اسکول سے آتے جاتے وقت کندھوں پر اپنے وجود سے بھی بڑے بستے لادے ہوئے بچے۔یہ جرم ہے ،سچ میں۔ بچہ اگر اپنے جسم کے وزن کے 10 فیصد سے زیادہ وزنی بستہ اٹھاتا ہے تو اسے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
جسم کے وزن کے مطابق حد تعین کرنے کے علاوہ، مفت اور لازمی تعلیم کے حق (آر ٹی ای) ایکٹ، 2009 کے تحت یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکولوں کو لاکر اور الماری جیسی سہولیات فراہم کرنا چاہئے تاکہ بچے اپنا کچھ سامان وہاں رکھ سکیں تاکہ وہ تمام دن پیٹھ پر بوجھ لادے رہنے کی اذیت میں مبتلانہ ہوں۔
حالانکہ ایسا ہوتا نہیں ہے، بہت سے اسکول یہ سہولت نہیں فراہم کرتے اور حالت یہ ہے کہ بچے کو اپنے جسم کے وزن کے 30 فیصد وزن کا بستہ ڈھوونا ہوتا ہے۔بھاری کتابیں، کاپیاں، دوپہر کے کھانے کے باکس، اسٹیشنری اور پانی کی بوتل بستے کو بھاری بنا دیتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کا اندازہ ہے کہ چھ سے بارہ سال کے بچوں کو عام طور سے سات سے دس کلو وزن اپنی پیٹھ پر ڈھونا پڑتا ہے۔ یہ محض روزانہ ہونے والا ظلم نہیں ہے اور اس پر کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ طویل عرصے میں اور بھی صحت کونقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے بڑھتے وزن سےبچوں کی نازک ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ ربڑھتاہے، اس کی پیٹھ کے مسائل کا خطرہ اور ریڑھ کی ہڈی کے غیر مناسب انداز میں بڑھنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور سے چھوٹے بچوں میں۔
href=”http://timesofindia.indiatimes.com/life-style/health-fitness/health-news/Is-your-kids-schoolbag-causing-a-health-hazard/articleshow/47586475.cms”
پیڈياٹرشين ابھی جیت گپتا نے ٹی او ای کو بتایا ‘’’ چار سے 12 سال کے عمر کے بچوں کی ترقی نوعمر کے مقابلے میں سست رفتار سے ہوتا ہے۔کا مطلب ہے کہ وزن ڈھونے سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
اس وزن کو کم کر کے آپ کے بچے کو اسکول جانے کے لیےزیادہ حوصلہ افزائی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ قانونی طور سے بھی ضروری ہے۔ اس سمت میں قدم اٹھانے کی ذمہ داری اسکولوں کی ہے اور بچوں کے بستے کے وزن کے لیے بھی اسکول ہی ذمہ دار ہیں۔ طالب علموں کی عمر کے حساب سے انہیں مناسب لاکر اورا سٹور کی جگہ فراہم کرنا چاہیے۔
سرپرست ایک اچھے بستےکا انتخاب کر سکتے ہیں، جس کے پٹے مضبوط ہوں اورکشن نرم ہو ںتاکہ وزن صحیح طرح سے کندھوں پر آئے، اس انداز سے بھی بچوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *