طلاق شدہ سرپرست ویڈیو کے ذریعے اپنے بچوں کے رابطے میں


طلاق شدہ سرپرست ویڈیو کے ذریعے اپنے بچوں کے رابطے میں

طلاق شدہ سرپرست ویڈیو کے ذریعے اپنے بچوں کے رابطے میں

ایک فلم کے یہ پلاٹ کیسا ہے؟
ایک جوڑا علاحدہ ہو جاتا ہے اور والدین میں سے کسی ایک کو بچے کی مکمل سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے یعنی کسٹڈی ملتی ہے، تو دوسرا سرپرست دور رہنے کی وجہ سے وہ بچے کے ساتھ اسکائپ سے رابطہ رکھتا ہے۔ جس سرپرست کو بچے کی سرپرستی کا اختیا ملا ہے ، وہ اس رابطے کو ختم کرنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کے تمام اختیارات ختم کر دیتا ہے۔ پھر کورٹ معاملے میں دخل دیتا ہے اور دونوں والدین سے ویڈیو کے ذریعے بات چیت کی مکمل وضاحت طلب کرتا ہے۔ کیا یہ حقیقی لگتا ہے یا بہت غیر حقیقی؟ اس صورت حال سے کامیڈی ہوگی یا ٹریجڈی؟
ٹھیک ہے، یہ حقیقت ہے اور اس کا اختتام کیا ہوا، اس کا اب انتظار ہے۔تنہائی کی اذیت کو ختم کرنے کے لیے ماں کی سرپرستی میں رہ رہے بچے اور اس کے والد کے درمیان رشتہ بنائے رکھنے کے لیے باندرا کے ایک فیملی کورٹ نے انہیں ویڈیو کالنگ ایپ کی مدد لینے کو کہا ہے۔
دراصل ایک باپ اپنے بچے کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ویڈیو کالنگ کی مدد لے رہا تھا، لیکن اس کے مطابق یہ تسلی بخش نہیں رہا۔اس کے والد نے الزام لگایا کہ اس کی سابقہ بیوی ویڈیو کالنگ کی وجہ بچے کی کھاناوغیرہ دیر سے دے رہی ہے جس کی وجہ سے بچے میں چڑچڑاپن اور خراب موڈ جیسی پریشانیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسی صورت میں اس کی ماں کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے بچے کو باپ سے بات چیت کے لیے ویڈیو کال کی سہولت دے اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھے کہ ویڈیو کال کے پہلے ہی بچے کو کھانا وغیرہ دے دیا جائے ۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے ماں سے کہا کہ ’’آپ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ اجازت دینا بچے کے بھلے کے لیے ہے نہ کہ اپنے سابق شوہر کو پریشان کرنے کا ہتھیار ہے۔‘‘
ماں نے عدالت میں اعتراض درج کیا کہ’’اب تک اسکائپ رسائی کے نتائج صرف 60 فیصد تسلی بخش رہے ہیں۔‘‘ اور ساتھ ہی ای میل پر بات چیت اور چیٹ ہسٹری سے پتہ چلا ہے کہ اسکائپ چیٹ کی وجہ بچہ’’ڈسٹریكٹ‘‘یعنی مشغول رہا ہے۔ اس کے جواب میں عدالت نے ماں اور باپ دونوں کو ایک چارٹ بنانے کو کہا جس میں ہر اسکائپ سیشن کے وقت، اس وقت بچے کی دماغی حالت اور سیشن کے دوران اطمینان کی سطح پر 1 سے 10 کے درمیان درجہ بندی کی گئی ہو ۔
کورٹ کے حکم میں ذکر ہے کہ ’’یہ آسان رکھنے کے لیے دونوں طرف تاریخ کے مطابق چارٹ بنائیں جس میں رابطے کی تاریخ، اسکائپ رسائی کی مدت اور اس دوران بچے کی ذہنی حالت بچہ چڑچڑا یا پورے سیشن میں خوش دکھائی دےاس سے متعلق کالم ہوں۔‘‘
اگرچہ یہ سب بہت ڈرامائی لگتا ہے لیکن جدید ٹیکنالوجی کا استعمال واضح ہوتا ہے۔ فیملی کورٹ کی وکیل مودُلا کدمکا کہنا ہے کہ ’’جس کے پاس بچے کی سرپرستی( کسٹڈی) نہیں ہے، اس سرپرست کے لیے اسکائپ ایک اچھا انتخاب ہے بچے سے بات چیت کے لیے، خاص طور پر جب دونوں مختلف شہروں میں ہوں۔‘‘
تاہم بات چیت کی كوالٹی کے نظریہ سے ویڈیو کالنگ کے لیے اطمینان بخش حل نہیں کہا جا سکتا۔ کدم کا کہنا ہے کہ’’اس طرح سے بچے اپنے اس سرپرست کے ساتھ آزادی کے ساتھ بات چیت نہیں کر پاتا جس کے پاس اس کی کسٹڈی یا سرپرستی کا حق نہیں ہے کیونکہ بچہ جس کی سرپرستی میں ہوتا ہے وہ سرپرست وہاں موجود رہتا ہے۔‘‘ پوزیشن اور بدتر ہو سکتی ہے جب ایک سرپرست نان كسٹڈيل سرپرست کے تعلق سے بچے کے دماغ میں الجھنیں پیدا کرا رہا ہویا منفی باتیں بتا رہا ہو۔ کدم مثال پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’یہ بچہ صرف آٹھ سال کی عمر کا ہے اور اس نے باپ کی جانب سے اسکائپ پر بات چیت کی خواہش کے اظہار پر جھوٹ بولنا سیکھ لیا ہے کہ وہ مصروف ہے یا وہ بات چیت کو جلد ختم کرنا چاہتا ہےیا یہ کہ میں تھک گیا ہوں یا اب بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
اس کہانی کا اگلا حصہ ضرور آئے گا، یہ طے ہے۔
اگر آپ اس مضمون میں دی گئی معلومات کو پسند کرتے ہیں تو برائے مہربانی فیس بک پر
https://facebook.com/FamiLifeUrdu کو لائک اور شیئر کریں کیونکہ اس اوروں کو بھی مطلع کرنے میں مدد ملے گی۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *